پھیلی ہے جو آنکھوں میں وہ لالی تو نہیں ہے
موجود ہے تُو دل میں خیالی تو نہیں ہے
تعویز محبت سے بچاؤ کا بھلا کیوں؟
میں نے یہ مصیبت کبھی پالی تو نہیں ہے
رہتا ہے تبسم کا طلبگار وہ تیرے
ورنہ وہ کسی در کا سوالی تو نہیں ہے
میں خاص سے لوگوں میں بڑا عام ہوں لیکن
تو خوب ہے پر اتنا مثالی تو نہیں ہے
چاہا ہے مجھے اُس نے محبت سے بھی زیادہ
کیا یہ بھی مری خام خیالی تو نہیں ہے؟
ازبر تھا کسے شہر میں آنکھوں کا ہنر اور
یہ بات کہیں تو نے اچھالی تو نہیں ہے؟
میں نے تو ترے خط بھی جلائے نہیں اب تک
تو نے بھی کوئی یاد سنبھالی تو نہیں ہے؟
شاید تری دستک سے ہی کھل جائے کوئی دَر
اب زینؔ یہاں گھر کوئی خالی تو نہیں ہے