نظر کا دھوکھا تھا یا سہانا خواب تھا
چڑھتی جوانی تھی حسن پہ شباب تھا
گورے گالوں پہ سرخی عجب تھی
لمس ہاتھوں کا کتنا دلگداز تھا
ہاتھ ملا کے میں تڑپتا رہا
وہ حسین بھی بے حساب تھا
نظریں ملانے کا مشاہدہ تھا کتنا حسین
ہونٹ چومتا تو خانہ خراب تھا
میرے دل کے ٹکڑے بھی لے گیا ساتھ
اس خون جگر کو وہ سمجھا شراب تھا
نظریں ملا کے وہ نظر ملا رہا تھا
اسی پہ ختم ہوا پھر وقت ملاقات کا
جاوید پہلی ملاقات ہوتی عجب ہے
وہ بھی بچھڑتے وقت لگتا اداس تھا