پہلے تو اپنے آپ کو تجھ سا کرے کوئی
پھر مجھ سے دوستی کا ارادہ کرے کوئی
حرکت دل و دماغ میں پیدا کرے کوئی
جو قوم مر چکی اسے زندہ کرے کوئی
سورج کے ساتھ ساتھ بدلتی ہیں اپنا رخ
پرچھائیوں پہ کیسے بھروسا کرے کوئی
خوشبو کی طرح بکھرا ہوا ہے فضاؤں میں
کیسے ترے وجود کو یکجا کرے کوئی
یہ بلب یہ چراغ مرے کام کے نہیں
کمرے میں مسکرا کے اجالا کرے کوئی
دل کا معاملہ تو ہے دل کا معاملہ
کب تک خود اپنے آپ سے جھگڑا کرے کوئی
بنیاد ہی کھسکنے لگے جب مکان کی
دیوار و در پہ کیسے بھروسا کرے کوئی
مجھ خاکسار کا بھلا ایسا کہاں نصیب
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
اے چاندؔ یہ عجوبہ تو ہونے سے اب رہا
آ کر ہمیں سمیٹے اکٹھا کرے کوئی