اب تُُُُو ہی بتا، ہم کس سے کہیں
کیوں سوچوں کے اس صحرا میں
ہم آوارہ سے پھرتے ہیں
کیوں غزلوں میں ویرانی ہے
کیوں نظمیں ایسی لکھتے ہیں
کیوں ہم کو اپنے جیون کا
ہر لمحہ قہر سا لگتا ہے
یہ راتیں کتنی لمبی ہیں
یہ چاند بھی زہر سا لگتا ہے
یہ صبحیں بوجھل بوجھل سی
یہ شامیں کتنی تنہا ہیں
یہ چوڑیاں کتنی چپ چپ ہیں
اِِِِن گجروں میں خوشبو ہی نہیں
جب زیست کا حاصل۔۔۔۔۔۔۔تُُُُُُُُو ہی نہیں
جب تُُُُو ہی نہیں تو پھولوں سے
زُُُُُلفوں کو سنوارہ کون کرے
اب اِِِِِن پتھرائی آنکھوں کو
کاجل سے نکھارا کون کرے
اب صحنِِِِِِ چمن کے پھولوں میں
وہ رنگ کہاں، وہ بات کہاں
دیتی ہے تمہارے بعد مزہ
اب ساون کی برسات کہاں
ہم جانتے ہیں کہ لوٹ آنا
اب تیرے بس کی بات کہاں
تم آؤ تو یہ موسم بھی زرا
بدلے کچھ اپنا بھیس پیا
کیوں بھایا ہے پردیس پیا
بھیجو کوئی سندیس پیا
کب آؤ گے اپنے دیس پیا
کب آؤ گے اپنے دیس پیا