پیاس لگتی ہے تو پانی بھی چُھپا دیتا ہے
کیسا حاتِم ہے سَوالی کو دَغا دیتا ہے
وہ بھلا کِس کو سکھاۓ گا وَفاؤں کے ہُنر
جس کا معمول ہے ہر اِک کو جَفا دیتا ہے
کتنا سنگدِل ہے محبت میں وہی شخص کہ جو
بِچھڑے محبوب کو پل بھر میں بُھلا دیتا ہے
کیسے میں یار کے احسان بُھلا سکتا ہوں
جب بھی مِلتا ہے کوئ زخم نیا دیتا ہے
ایسا سنگدِل ہے کہ پڑ جاۓ ضرورت جو کبھی
میرے ہوتے ہوۓ غیروں کو صَدا دیتا ہے
یہ بھی سچ ہے کہ زمانے کا وہ سنگدِل ہے مگر
سامنے آۓ تو غَم سارے بُھلا دیتا ہے
اے طبیب اتنا نہ کر اپنی دواؤں پہ ناز
وہ مرا رَب ہے جو ہر اِک کو شَفا دیتا ہے
دَرحقیقت وہی انسان حُسینی ہے کہ جو
نوکِ نیزہ پہ بھی قاتِل کو دُعا دیتا ہے
اُس سے بڑھ کر کوئ رازِق نہیں ہو گا باقرؔ
وہ جو پتھر میں بھی کیڑوں کو غِذا دیتا ہے