پینے دے مجھے شراب تُو روک نہ ساقی
آج پھر یاد آیا مجھے وہ بیوفا ساقی
میرے غمِ جاناں کا کر تُو بھی احترام
سامنے بیٹھ جا تُو اور پی پیلا ساقی
دردِ دل ہے بڑھ رہا جان پہ بنی ہے
میرے لبوں سے تُو آج بوتل لگا ساقی
اشکوں کو جام میں ملا کر پینے دے
یادوں کے قافلوں کو میرے سامنے بیٹھا ساقی
اگر ہمدرد ہے تُو میرا تو اِک کام کر
مر جاؤں میں ابھی دے مجھے بددعا ساقی
ساقی تری شراب بھی بے ذائقہ سی لگے
اِس میں زہر کی مقدار ذرا بڑھا ساقی
تجھے واسطہ ہے ساقیاں ترے میخانے کا
نہالؔ کی دلربا ڈھونڈ کے تُو لا ساقی