چاند مکر گیا کر کے رات اندھیری کچھ نہیں دکھتا
ہے منظروں آڑے دھند گھنیری کچھ نہیں دکھتا
اپنے خیال کی پیچیدگی میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ
ضبط سے بڑہ گئی ہے اسیری کچھ نہیں دکھتا
ان کی نزاکت کی خبر ہوتی تو اظہار محبت نہیں کرتے
منور کرکے بھی اُجڑی دنیا میری کچھ نہیں دکھتا
کیوں معصومیت کی سوچ پہ عداوتیں چلتی ہیں
تنگ ہوکے اُس نے توڑدی چؤدیواری کچھ نہیں دکھتا
یوں تو ہر قبولیت سے پرہیزگار تھے ہم بھی
ہر حالت دے گئی فاقہ پذیری کچھ نہیں دکھتا
سبھی شریک جرُم چہرے نقاب اوڑھتے ہیں سنتوشؔ
ابکہ کون سی ہی چال تیری کچھ نہیں دکھتا