کون ہوں میں، کیا ہوں، کس حال میں ہوں
پتہ کچھ چلتا نہیں مجھے، کس خیال میں ہوں
آئینے کے سامنے کھڑا ہوا جب، خود پہ پیار آنے لگا
تیری چاہت کا نشہ ہے، جانے کس خمار میں ہوں
تیرے ساتھ ساتھ جو چلتا ہے، تم سمجھتے ہو اسکو سایہ
وہ تو میں ہوں، ہاں زرا تیرے خدوخال میں ہوں
تم مجھے بھول جاؤ، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا
میں تو خون کیطرح رواں، تیرے جسم و جان میں ہوں
میری چاہتوں کا عروج ہے، نہ ہوگا کبھی انہیں زوال
جاوید یہ اور بات کہ عمر کے میں اب زوال میں ہوں