چاہے خوابوں میں ہی وہ مُجھ کو سَتانے آۓ
اَرے آۓ تو سَہی دِل ہی جَلانے آۓ
میری خاطِر نہیں آتا تو نہ آۓ لیکن
اپنے وعدوں کو تو سَچ کَر کے دِکھانے آۓ
وہ جو رُوٹھے تو مَیں گھر اُس کو مَنانے جاؤں
اپنی باری پہ نہ وہ مُجھ کو مَنانے آۓ
ایسا لَگتا ہے مُجھے مِلنے کو آۓ گا ضرور
رات سوتے میں مُجھے خواب سُہانے آۓ
مَیں نَفاسَت سے محبت کو نِبھاتا جو رہا
میری قِسمَت میں جُدائ کے خَزانے آۓ
اُس کا یہ فعل مِری عُمر بَڑھا دیتا ہے
مُجھے اِک بار وہ پِھر چھوڑ کے جانے آۓ
مُجھ سے دیکھا نہیں جاۓ گا وہ رونا اُس کا
قَبر میری پہ نہ وہ پُھول چَڑھانے آۓ
عُمر بِیتی میری تَنہائ سے لَڑتے باقرؔ
لَوٹ کر پِھر نہ محبت کے زَمانے آۓ