کبھی خواہشوں کی باتیں کبھی بندشوں کے چرچے
میری عمر رواں نے دیکھے کئی محبتوں کے چرچے
مجھے سکوں نہیں تھا کل تک مجھے چین نہیں ملا تھا
ہوا کیا ہے آج ایسا کہ ہیں راحتوں کے چرچے
بے درد نے دل لیا تھا عائش مجھ کو رنج دیا تھا
عام ہونے لگے ہیں میری قربتوں کے چرچے
میرے گرد تھا جو حصار وہ تو کب کا ٹوٹ چکا ہے
عائش کرتا ہے کیوں وہ مجھ سے اپنی الفتوں کے چرچے