چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ

Poet: بقا اللہ بقاؔ By: مصدق رفیق, Karachi

چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ
محتسب آج کدھر جام کہاں ہے شیشہ

بزم ساقی میں جو آواز نہیں قلقل کی
اس قدر آج یہ کیوں پنبہ دہاں ہے شیشہ

محتسب سنگ لیے ہاتھ میں اور سوئے فلک
دم بہ دم چشم دہن سے نگراں ہے شیشہ

پانو رکھتا ہی نہیں ناز سے بالائے زمیں
کف بہ کف بزم میں ساقی کی رواں ہے شیشہ

ہے تراوش میں بقاؔ اس سے مے ناب سخن
ہے بجا کہیے اگر اپنا دہاں ہے شیشہ
 

Rate it:
Views: 122
20 May, 2025