چشمِ سیراب نے دیکھا نگاہ بھر کے مجھے
مِلا سکوں ، نگاہِ ناز میں اتر کے مجھے
مستقِل روگ میری جان سے چِمٹ گیا ہے
“مِلے گا چین تو اب جان سے گزر کے مجھے“
نہ وہ آئے ، نہ ان کی یاد نے ہی دستک دی
“گیا پِھر آج کا دِن بھی اداس کر کے مجھے“
ہم سے شکوہ نہ کیجئیے کہ ہم نہیں آئے
“ کہ راستے نہیں معلوم اِس نگر کہ مجھے“
چشمِ سیراب نے دیکھا نگاہ بھر کے مجھے
مِلا سکوں ، نگاہِ ناز میں اتر کے مجھے