چلو تو زندگی میں ساتھ مل کر چلنے لگتے ہیں
گھٹن میں جی لیا ہم نے جو چل کر مرنے لگتے ہیں
ڈسے ہم ہیں، ڈسے تم ہو، مگر دشمن نہیں ملتا
کہیں باہر نہیں یہ سانپ، گھر میں پلنے لگتے ہیں
کوئی پارس نہیں چھوتا، مگر سونا نکلتا ہے
چلو مل جل کے ہم انسانیت میں ڈھلنے لگتے ہیں
ہمیشہ خون کرتے ہیں ہماری آرزوؤں کا
تمناؤں کا نذرانہ طلب یہ مرنے لگتے ہیں
جہاں آدم بنے انساں کہیں ڈھونڈو وہی بھٹی
بنیں ایندھن، ہمارے ساتھ مل کر جلنے لگتے ہیں
یہ اس دورِ کشاکش نے تو یوں رکھا ہے ٹھوکر پر
کہانی سیل غم کی اب سنانے کہنے لگتے ہیں
جو ذہن و دل میں زہریلی ہوا کے تیر چلتے ہیں
تری یادوں کے پتھر بھی مجھے اٹھانے لگتے ہیں