چلو عشق کے اتحاس کو کھنگالا جائے
دل کو پھر سے کسی اچنمبے میں ڈالا جائے
اس سے کہنے کو بہت ہیں دل کی باتیں
پہلے ذرا خود کو حیرت میں سے نکالا جائے
اس سے بچھڑنے کا لگا ھے صدمہ دل کو
دل کی حالت خستہ ھے خود سر سنبھالا جائے
ھم سے اٹھنے کا نہیں یہ بوجھ کسی سورت
چلو یہ بار وفا کسی اور پر چل کے ڈالا جائے
اس کو ملنے سے ھے انکار یار اسد ھم سے
اب حسرت دید کو اپنی کس اوور نکالا جائے؟