چلو پھر اس جگہ سے ساتھ مِل کے آج ہم گزریں
چلو پھر تتلیوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے
کئی رنگوں میں لپٹی مہکی مہکی راہگزاروں سے
بھٹکتے جگنوؤں کی ٹولیوں کو ڈھونڈنے نکلیں
بہت آگے بہت ہی دور تک پھیلی ہوئی دھرتی
جہاں پوشاک سبزے کی ہو نقاشی ہو پھولوں کی
جہاں رنگوں میں کِھلتی روشنی ہر سو دمکتی ہو
جہاں پنچھی بہت میٹھے سریلے نغمے گاتے ہوں
جہاں چشموں کا ٹھنڈا میٹھا پانی راہ تکتا ہو
کسی ایسے مسافر کا جو رستہ جانتا نہ ہو
کسی بے نام جستجو کے پیچھے بھاگتے ہوئے
اچانک ہی کسی جھرنے کی مدھم بانسری سن کے
چلا آئے حسیں وادی میں یوں ہی بھاگتے ہوئے
وہ خوابوں سی زمیں جس پہ کہانی سا گماں گزرے
کسی تعبیر کی مانند نگاہوں میں جو اتری ہو
اسی دھرتی اسی جنت اسی تعبیر سے گزریں
چلو پھر اس جگہ سے ساتھ مِل کے آج ہم گزریں