میں مصلحتوں کا قیدی
وہ آزاد ہوائوں جیسا
میرا من بنجر ماٹی
وہ گھنگھور گھٹائوں جیسا
وہ جیسے تیز ندی
میں منجدھار میں نائو جیسا
گرم سانسیں جیسے آگ
جسم دھکتے الائو جیسا
جیون ایک تپتا صحرا
میں بھٹکتی صدائوں جیسا
پل میں کرلے بس میں اپنے
عشق کا روگ بلائوں جیسا
سارے رشتے پیارے ہیں
کوئی نہیں ہے مائوں جیسا
دنیا ساری دیکھ لی زاہد
کوئی شہر نہیں میرے گائوں جیسا