چُپ چاپ سر ِ شہر ِ وفا سوچ رہے ہو
لگتا ھے کوئی اپنی خطا سوچ رہے ہو
وہ کون ھے گُزرا تھا جو اِس راہگزر سے
کِس کے ہیں نقوش ِ کف ِ پا سوچ رہے ہو
تم سوچتے رہتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں
میں دیکھتا رہتا ہوں کہ کیا سوچ رہے ہو
خود اپنے گلستان کے پھولوں کو مسل کر
ناراض ھے کیوں موج ِ صبا سوچ رہے ہو
اِک وہ ہیں جو تکمیل ِ سفر کر بھی چکے ہیں
اِک تم ہو ابھی نام ِ خدا سوچ رہے ہو
یکرنگی ِ افکار کے اِس دور میں یاور
حیران ہوں تم سب سے جدا سوچ رہے ہو