چھایا رہتا ہے

Poet: UA By: UA, Lahore

کبھی کبھی تخیلات پہ یوں اندھیرا چھایا رہتا ہے
کوئی منظر واضح نہیں ہوتا کہرا چھایا رہتا ہے

تکرار الفاظ موضوعات کا راستہ روک لیتی ہے
جیسے کہ درعنوان پہ کوئی پہرہ چھایا رہتا ہے

جذبہ دل اور حسن نظر جب جب باہم ملتے ہیں
پلکوں تلے رنگ و نور کا سہرا چھایا رہتا ہے

جب راہ شوق میں ہجر وصل اور وصل ہجر ہو جاتا ہے
تب روح و دل پر لطف و کرم بھی گہرا چھا یا رہتا ہے

یہی تو عقل اور عشق میں نمایاں امتیاز ہے عظمٰی
عقل ساکن، عشق پہ تحریک کا لہرا چھایا رہتا ہے
 

Rate it:
Views: 494
24 May, 2009