چھوڑ روتا ہوا جاتے ہو غضب کرتے ہو
غیر کی بزم سجاتے ہو غضب کرتے ہو
بیٹھتے ہو جو رقیبوں کی بغل میں دن رات
یونہی دل روز دکھاتے ہو غضب کرتے ہو
آپ کی سادگی ہے اہلِ محبت کو بہت
آنکھ کاجل سے سجاتے ہو غضب کرتے ہو
یاد آنا ہے تو دن میں بھی تو آ سکتے ہو
رات بھر مجھ کو جگاتے ہو غضب کرتے ہو
کیسے وہ جان گیا درد مرا جس نے کہا
اشک آنکھوں میں چھپاتے ہو غضب کرتے ہو
آنکھوں سے پینے نہیں دیتے ہو تکنے تو دو
جو حجاب ان پہ گراتے ہو غضب کرتے ہو
ایک یاد ان کی ہے رکھتی ہے جو مدہوش ہمیں
ساقی ایسے میں پلاتے ہو غضب کرتے ہو
سارا دن یاد ستاتی ہے تمہاری ہم کو
رات پھر خواب میں آتے ہو غضب کرتے ہو
ہم تمہیں شعر سنانے کا ہیں کہتے باقرؔ
تم ہمیں درد سناتے ہو غضب کرتے ہو