چھوڑو کیا گلہ کریں تم سے اجنبی سے بن کہ ملے ہم سے
پہلے سا تکلف نہ سہی پھر بھی باتوں باتوں میں حال پوچھتے ہم سے
حرارت جاں بڑھاتا ہے انگ سے نہیں لگایا جاتا
وصل کے ساون میں بھیگاہوا آنچل ہم سے
تمھارے دیس کی ہواوں میں یہ حوصلے ہی کب
بھڑک اٹھیں درد کے شعلے اک پل کو جوچھو جائیں ہم سے