چھپائیں کتنا بھی وہ اپنا پیکر غم نہیں ہوتا
نگارِ حسن کی زلفوں کے پیچ و خم نہیں ہوتا
عطا کی ہے خدا نے تھوڈی سی جوہر شناسی بھی
‘ میں اک شبنم کے قطرے میں سمندر نم نہیں ہوتا‘
ہے فطرت میں قناعت ‘ تو فقط چکھتی ہوں تھوڑی سی
مزہ آیا اگر چکھ کر ، تو پی کر غم نہیں ہوتا
خدا محفوظ رکھتا ہے کرم سے خیر خواہوں کے
کہ ان کی آستینوں میں کوئی الم نہیں ہوتا
خود اپنافیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو یہ پرنم نہیں ہوتا
ہمارے درد و غم کا کچھ مداوا ہو سکے شاید
تری آنکھوں کا موسم کیا یہ موسم نہیں ہوتا
گلہ وشمہ کریں کیوں ہم کسی کی بے وفائی کا
رہے گا یاد بھی کیسے جو اس کا غم نہیں ہوتا