چھپائے لاکھ مگر تو چھپا نہ پائے گی
ہے مجھ سے پیار یہ کب تک بتا نہ پائے گی
تری نگاہوں نے سب بھید کھول ڈالے ہیں
کہ کتنے پیار کے طوفان دل میں پالے ہیں
میں بس رہا ہوں ترےدل میں کیوں نہیں کہتی
بتا دے لب پہ خموشی کے کیوں یہ تالے ہیں
یہ جاگتے ہوئےارماں سلا نہ پائے گی
چھپائے لاکھ مگر تو چھپا نہ پائے گی
تو لے تو لے مجھے بانہوں میں پر ہے مجبوری
کہ شرم کہتی ہے تجھ کو رہے ذرا دوری
مجھے بھی پیاس ہے نزدیک تیرے آنے کی
میں سوچتا ہوں تمنا کبھی تو ہو پوری
مری طرح تو بھی حسرت مٹا نہ پائے گی
چھپائے لاکھ مگر تو چھپا نہ پائے گی
ہےمجھ سے پیار یہ کب تک بتا نہ پائے گی