چھپی ہے دل میں محبت کہوں تو کس سے کہوں
یہ دل لگی ہے حقیقت کہوں تو کس سے کہوں
کمال یار تھا دل توڑ جو گیا ہے مرا
کی یار نے ہے عداوت کہوں تو کس سے کہوں
جدائی ہجر نہیں سہہ یہ کرب پاؤں گا
گری ابھی ہے قیامت کہوں تو کس سے کہوں
لٹا دیا ہے سبھی خوش نہیں ہوا پھر بھی
اسے ہوئی نہ ندامت کہوں تو کس سے کہوں
بدل گیا ہوں نزاکت کسی کی دیکھ کے میں
نہیں رہی ہے شرافت کہوں تو کس سے کہوں
ابھی تلک نہیں بھولا میں لمس چھوئے تھے
نہیں گئی ہے رفاقت کہوں تو کس سے کہوں
نہیں ہے سنتا کوئی بات آج کل میری
خسارے میں ہے تجارت کہوں تو کس سے کہوں
نہیں سمجھ ابھی شہزاد وہ مجھے پایا
کہ پیار میں ہے صداقت کہوں تو کس سے کہوں