کوئی دُھندلہ سا ایک چہرہ میری آنکھوں میں رہتا ہے
کوئی بھٹکتا سا ایک جُگنو میرے خوابوں میں رہتا ہے
ایک مانُوس سی آواز مجھے سونے نہیں دیتی
کوئی اُلجھا سا ایک جُملہ میری یادوں میں رہتا ہے
مجھے خود پر نہیں قابو نہ میں کچھ کہہ سکتا ہوں
اثر یہ کس کے لفظوں کا میری باتوں میں رہتا ہے
دسمبر کی خُنک راتیں مجھے بہت بے چین رکھتی ہیں
لمس ایک ہاتھ کا اب تک میری سوچوں میں رہتا ہے
ہے دل بھی مضطرب احساس بھی سوچوں کی اُلجھن بھی
یہ کس کی آنکھ کا آنسو میری آنکھوں میں رہتا ہے