چہرے پہ اس کے دیکھی نزاکت کمال ہے
رہتا حجاب میں ہے شرافت کمال ہے
ہے زینہار دل میں حقیقت یہی ہے سچ
آشوب ہے ہرطرف یہ شرارت کمال ہے
چھوئے ہیں لمس پھول سجائے ہیں زلفوں میں
کیسے اسے میں چھوڑوں رفاقت کمال ہے
انکار کرتا ہی نہیں ایسا ہے دل کا وہ
مالوف میرے کی یہ محبت کمال ہے
بن مانگے دینا ہے جو عنایت ہے یار کی
رکھتا وہ اپنے دل میں رعونت کمال ہے
دن رات سوچتا ہوں یہی روز دوستو
صدمہ نہیں وہ بھولا عداوت کمال ہے
گرویدہ اس لیے ہوا ہوں میں دیکھ کر
شہزاد دیکھی اس میں ذہانت کمال ہے