ماضی اپنا کرکے یاد آہ میں بھرتا ہوں
مسقبل کا سوچ کے آج میں ڈرتا ہوں
کھیلتے کودتے تھے جن گلیوں کوچوں میں
اُن میں ا ب نکلنے سے میں ڈرتا ہوں
اک تصویر خوبصورت سی بنا تو لی ہے مگر
اُس میں اب رنگ بھرنے سے میں ڈرتا ہوں
مانا کہ مجھے پیار ہے اُس سے مگر
سامنے اُس کے اظہار کرنے سے میں ڈرتا ہوں
بڑی مشکل سے سمیٹا ہوا ہے اپنی ذات کو
زندگی کی راہوں میں بکھرنے سے میں ڈرتا ہوں
مجھے یہ عشق لے ڈوبے نہ کہیں ، اس لئے
محبت کی راہ پہ چلنے سے میں ڈرتا ہوں
دو چار قدم چل کر چھوڑ نہ دے وہ کہیں مجھے
ہاتھ اس لئے اُس کا پکڑنے سے میں ڈرتا ہوں