ڈھونڈتے تھے تم سے ملنے کے بہانے کتنے
سامنے رہ کر بھی رہے بیگانے کتنے
ہم نے تو پیار کا اک پیغام ہی دیا تھا لیکن
لوگوں نے بنا لیے افسانے کتنے
دل فقط اک مزار پہ سجدہ ریز رہا
سر اٹھا کر دیکھا تو بیت گئے زمانے کتنے
جب بھی ملا زندگی میں فریب ہی ملا
ہم خود کو سمجھتے رہے سیانے کتنے
جب سلگتے راستوں پر قدم رکھا تو معلوم ہوا محسن
پتا نہیں یہاں اور بھی ہیں دیوانے کتنے