کئی بدنامیاں ہوتیں کئی الزام سر جاتے
مگر اے کاش ہم دونوں ہمی دونوں پہ مر جاتے
اگر تم خواب ہوتے تو تمھیں آنکھوں میں ﺭﻛﻬ لیتے
نہ گویا نیند سے پھر جاگتے حتیٰ کے مر جاتے
اگر ہم روشنی ہوتے تو پھر احساس کی لو سے
زمیں کو چھوڑ دیتے مل کے دونوں چاند پر جاتے
اگر تم پھول ہوتے تو تمہاری خوشبو میں رہتے
سمندر کی طرح ہوتے تو ہم تم میں اتر جاتے
ہمارے خال و خد کیسے ہیں یہ اب تک نہیں دیکھا
اگر تم آئینہ ہوتے تو ہم کتنے سنوار جاتے
تمھارے حسن پہ پہرہ ہمارے عشق کا ہوتا
جواں رکھتے سدا تم کو اگر لمحے ٹھہر جاتے
اگر سورج ہی ہوتے تو پھر اپنی دھوپ کی صورت
وجود یار کی دھرتی پہ شاہی ہم بکھر جاتے