کاغذ قلم کی خود نَمائی تو ہے
دنیا کتب کی جگ ہنسائی تو ہے
کس کس طرح گرداب سے ہے بچنا
کشتی کی حاجت ناخدائی تو ہے
دنیا سمجھتی ہے جسے خوشحالی
سب سے بڑی وہ بے حیائی تو ہے
گر سیکھنے اطوار جینے کے ہیں
ہر آن قرآں رہنمائی تو ہے
انسانیت کے درس میں بھی آجکل
حیوانیت کی آشنائی تو ہے
دنیا نہیں کھتری محبت کی جا
دنیا سراسر بے وفائی تو ہے