اپنی پرچھائیوں کے گھیروں سےایک بزم سجا دی ھے
اور ان کے لئیے راستے میں ایک شمع جلا دی ھے
راھوں کو تکتے تکتے آنکھیں پتھرا گئی ھیں
انہیں آنکھوں کے پتھروں سے انکی مورت بنا دی ھے
ھؤاوں سے پوچھتیں ھیں کوئی پیغام لا ئے ھو
صبا کو رو کے رکھیں ایک دیوار بنا دی ھے
جگنوں ھیں بے قرار ان کو لانے کے لئیے
روشنیوں کی معزرت سے چھٹی کرا دی ھے
شاید وہ ھمیں اپنے قابل سمجھ سکیں
کاغز پر کاٹ کاٹ کر اپنی عمر گھٹا دی ھے
وہ آ کر اتنے قریب سے لوٹ کر چلے گئے
میر ے تو جزبوؤں کی ھنسی اڑا دی ھے
بچڑ کر وہ گیا ھمارہ کیا قصور
تل تل مر ے جئیے خود کو سزا دی ھے
کاغز کی کشتی ڈو بی غم منا رھے ھیں
جیون کی پختہ کشتی خود سے جلا دی ھے
اس دنیا میں اب عارف کچھ نہ رھا ھے باقی
اس میلے سے ھم نے اپنی دکان بڑھا دی ھے