کامرے تم میرے ہو
Poet: AHSAN KAMRAY By: Ahsan Kamray, Lahoreاسے چاہت تھی
وہ کہتا تھا
تنہا نہیں ہوں میں
میری روح میںتم ہو
شاید
وہ ٹھیک ہی کہتا تھا
دن رات
صبح وشام
بس میں اور میرا ذکر
اکیلا تو نہ تھا
میری یادیں ،میرا سب کچھ
ساتھ تھا اس کے
مگر اب۔۔۔
میں دور ہوں اتنا
کہ وہ چاہے بھی تو
میں اسکی ہو نہیں سکتی
مگر
کیا وہ۔۔؟؟
اب بھی اکیلا نہیں۔۔۔
کہیں؟؟
میری یادوں کے سہارے
آج بھی
جی رہا ہوگا۔۔۔
اسی طرح مجھے چاہتا ہو گا۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔خدارا نہیں
ارے
کوئی سمجھائے اسے
کہ وہ بھی میری چاہت ہے
ناجانے کیوں۔۔۔۔
انا کے ہاتھوں مجبور
اسکی محبت ٹھکرا دی
اور وہ۔۔۔
کیا سوچتا ہو گا
مجھے ڈھونڈتا ہو گا
اسکی نظریں
معلوم ہے مجھے
آج بھی
میری منتظر ہوں گی۔۔۔
ارے سنو۔۔۔۔۔۔۔!
اک بار
کوئی تو لے چلو مجھے۔۔۔
چاہے جو بھی
قیمت لے لو
اک بار
بس اک بار
تمہیں محبت کی قسم
اک بار ملوا دو مجھے
اسے میں
کچھ نہ کہوں گی
بس اتنا کہ
کامرے تم میرے ہو
صرف میرے ہو ۔۔۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






