کانٹوں سے پھولوں کے باغ نہیں کٹتے
یہاں خود جلنا پڑتا ہے چراغ نہیں جلتے
عشق جب کوئی آندھی لے گذرتا ہے
تب تو شہسواروں کے سرُاغ نہیں ملتے
تشویس انسان کو مناسب نہیں چھوڑتی
لاکھ منانے پر بھی یہ عذاب نہیں بہلتے
انحرافی کو منزل کا چوراہا بھی ملا مگر
راہوں پر قدموں کے ابھاگ نہیں چلتے
تکلیفوں کو تو ہر الجھن کہہ رہی ہے کہ
کسی بھی درد کے دل پہ داغ نہیں ہوتے
اپنے پھیلاؤ سے ہی پھسلو نہ سنتوشؔ
ہم غنیمت کو کہیں بھی گستاخ نہیں کہتے