کب سے منتظر ہیں کہ شراب آئے
ساقی اتنی دیر سے مگر آپ آئے
آئے ہیں تو جلدی سے پیمانہ بھرئیے
اس سے پہلے کہ یاد عذاب آئے
لکھ تو آئے ہیں انہیں چند حروف شکائت
کون جانے کیا ان کا جواب آئے
اے گل اپنی رنگینی پہ نہ اترا
آئے کچھ دیر کو جو شباب آئے
حسن ساقی جزو لازم ہے مئے کشی کا
کیسے ممکن ہے درمیاں حجاب آئے
ہم بھی واقف ہیں ان کی کمزوری سے
کچھ تاخیر سے سہی مگر جناب آئے
گرا چکے ہو جو خود کو اپنی نظروں میں
ایاز کیا کرو گے روز حشر گر حساب آئے