کب ملاقات کہاں کرنی ہے وعدہ دے دو
ملنے آنا ہے کہاں زیست کا لمحہ دے دو
کال کرتا ہوں تمہیں روز اٹھاتے ہی نہیں
تنگ کرتا ہوں اگر تم کو میں پرچہ دے دو
وقت ضائع ہی کیا میرے نہیں ہوئے تم
خرچ پیسے جو کیے تم پہ ہیں خرچا دے دو
ہجر کی سولی پہ لٹکی ہوئی تھی جان مری
جو گیا سوک ہے اک خون کا قطرہ دے دو
یار نے آج بلایا ہے نہ روکو مجھ کو
آج جلدی میں ہوں تم تھوڑا سا رستہ دے دو
لوگ پہچان تمہیں اچھے تخیل سے لیں
اپنے الفاظ کو کردار کا جامہ دے دو
حال شہزاد غریبی نے کیا ہے ایسا
پاس میرے تو کتابیں ہی ہیں بستہ دے دو