کب ڈرتا ھے کوئی انجام عشق سے
خواہ ہو جائے زمانہ بدنام عشق سے
ہمکو غیر سے بھلا کیونکر ہو سروکار
ہمیں تو مطلب ھے ہر گام عشق سے
ھے جذبہ خیر سگالی میں ڈوبا کل تمام
بھولے لڑے نہ کوئی سر عام عشق سے
مجنوں کو مارے ھے پتھر زمانہ کس لیئے
خدا کا خوف کھائے کوئی خدام عشق سے
کس کی مجال کہ حسن پر اتھائے انگلیاں
دل کو گہرا تعلق ھے اسد تمام عشق سے
تمہید میں اس کا کیوں کر نہ لکھوں نام
کیا غزل کا نہیں ہونا چاھئے انجام عشق سے