کبھی جو جون نے ہم کو کلام بھیجا ہے
تو جواب میں میں نے سلام بھیجا ہے
کبھی اس نے میری شاعری سننے کی زد لگائی تھی
اب اسی نے چپ رہنے کا پیام بھیجا ہے
کبھی صورتوں کو پہچان نے کا ہنر آتا تھا
اب خود ہی کو ڈھونڈنے کا اعلان بھیجا ہے
کوئی کچھ بھی کہے ہم کو یہ گوارہ ہے
پر تیرے بارے نا کہنے کا اعلان بھیجا ہے
کبھی کسی کی آنکھوں میں رہنے کا شوق تھا مجھ کو
ابھی خود کو مارنے کا انعام بھیجا ہے
کبھی اس کی نظر کو بھی ہم ترستے تھے
اب وہ بولے بھی تو خدا حافظ کا جواب بھیجا ہے
اس سے مجھ کو نفرت تو نہیں لیکن ہاں
اس سے محبت کا ہی میں نے انکار بھیجا ہے
کبھی "ویسر" کا دیوانہ میں ہوا کرتا تھا
ابھی عامر کو بھی میں نے جواب بھیجا ہے