کبھی ساگر کبھی سنسان، اپنائے ہیں اب تک
کس خوف میں درمان چھپائے ہیں اب تک
میری رنگت میں تو بے لطفی ویسی ہی ہے
اپنے گھر تو مہمان کئی آئے ہیں اب تک
یہ شجاعت کی دیوانگی تھی کہ ہم مر نہ سکے
ویسے تو بہت ہی ارمان آئے ہیں اب تک
تنگدستی سے آنکھیں جو بند ہو چکی تھی مگر
غیر دلچسپی کے غلطان جتائے ہیں اب تک
میرے خوابوں کو حراست میں کس نے لے لیا
بے سانس ان کی نگہبان پڑے ہیں اب تک
زمانہ پتھر دلی کے ساتھ نابین بھی رہا ہے
سنتوشؔ سب آنسو یوں رائیگان بہائے ہیں اب تک