عشق قاتل یا مسیحا کبھی سوچا ہی نہیں
میں بھی ہوں تیرا شناسا کبھی سوچا ہی نہیں
یہی سوچا کہ مجھے بھول نہ جائے وہ بھی
وہ مجھے یاد کرے گا کبھی سوچا ہی نہیں
اس کی آنکھوں پہ کتابیں تو بہت لکھتے ہیں
اس کا یہ حسن و سراپا کبھی سوچا ہی نہیں
تو بچھڑ کر بھی میرے وہم و گماں پر حاوی
میں نے کتنا تجھے سوچا کبھی سوچا ہی نہیں
بعد تیرے میں سمٹتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسے کیسے
کیسے کیسے ہوں میں بکھرا کبھی سوچا ہی نہیں
دوڑتا رہتا ہوں میں موت کی جانب لیکن
زندگی سے بھی ہوں بھاگا کبھی سوچا ہی نہیں
سر محفل بھی میں خاموش رہا ہوں آرب
حسن بن جائے تماشہ کبھی سوچا ہی نہیں