کبھی مقدِم لوگ ہمقدم نہیں ہوتے
اس قدر عہد و پیمان یکدم نہیں ہوتے
کچھ مغرور بچھڑتے ہیں مجبوری جتاکر
کون کہتا ہے محبت کے قِسم نہیں ہوتے
اگر خیالوں میں حوادث کا پیمانہ نہیں ہوتا
فلسفے بھی کہیں متعلق علم نہیں ہوتے
جو تم نے سوچی اس میں تم ہی غرق ہو
حَوس میں کائنات کے بلغم نہیں ہوتے
عمدگی کا سلہ لیاقت نے پاس رکھ لیا
کبھی با اسلوبوں کے سَر قلم نہیں ہوتے
سرکشی میں پھر اتفاق پیدا کرو کیونکہ
حق دراڑوں میں کبھی ردم نہیں ہوتے