کبھی میرے شہر میں آؤ تم
Poet: ارسلان حُسین By: Arsalan Hussain, Dubaiسفید پوش کاغذ پر ہجر کی سیاہی سے
رقم سِسکیاں کر کے اشکوں کے قطروں میں
خود پر گزرتی ہوئی رنجِشوں کے طوفاں کو
الفاظ کی صورت میں مجھکو لکھ بھیجا ہے
حال تم نے پوچھا ہے وہ بھی اس لہجے میں
جو پیوند میں جکڑیں ہوں
چند سوال شامل ہیں شکووں کے تیور میں
مجھکو اتنا سمجھا دو درمیاں اس دُوری کو کب زوال آئیگا؟
آخر ان آنکھوں کے کب رابطے بَھال ہونگے؟
الفاظ کی ڈوری یہ آخر کب ٹُوٹیگی ؟
سنو!
دل کے اس گلشن میں کاغزی پھولوں کو اب اور نہیں کھِلنا
مجھکو ان الفاظ کے لہلہاتے باغوں میں تم سے اب نہیں ملنا
مجھے تم سے وہاں پر ملنا ہے
جہاں سُکھ دُکھ کی سوغاتیں آپس میں بانٹ لیتیں ہیں
جہاں صبح سورج کی کِرنیں
جاگتی آنکھوں میں نئے خواب بُنتی ہیں
آبشار کے موسم میں ٹھنڈی ہواؤں کے سنگ
کَلیاں رَقص کرتی ہیں
تاریک راتوں میں چاند کے حوالے سے چاہنے والے
ڈھیرو باتیں کرتے ہیں
بوجھل آبِ دیدہ سے اِک دوسرے کا ہاتھ تھامے
ساتھ جہاں نبھاتے ہیں
کبھی اس شہر کا رُخ کرنا
کبھی میرے شہر کا رُخ کرنا
سنو!
اپنے وقت کی ڈالی سے فرصت کے چند لمحیں توڑ کر لےآؤ تم
یہ مجھے بُلاؤ تم
اپنے مصروف شہر کی بھِیڑوں میں
جہاں ذندگی کے لمحوں میں بے چینیاں گنگناتی ہیں
جہاں اپنوں سے ملنے کو آنکھیں ترستی ہیں
وہاں میرے سنگ مصروفیت کے چند لمحیں بِتاؤ تم
کبھی اپنے شہر بُلاؤ تم ؟
یہ میرے شہر میں آؤ تم !
سنوں جاناں!
تمھارے سب سوال بجا لیکن
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
میرے شہر کی بھِیڑوں میں تم بھی کھو جاؤگی
تم بھی وقت کے ہاتھو مجبور ہو جاؤگی
یہاں صبح کے اُجالوں کے سنگ خواب ہم نہیں بُنتے
یہاں تاریک راتوں میں جاگتی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے
خواب دیکھتے تو ہیں مگر تعبیر کی کوئ صورت بر نہیں آتی
یہاں معتبر لوگ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں
آس توڑ جاتے ہیں
میرے شہر کے گلشن میں کاغزی پھولوں کا ہی کاروبار چلتا ہے
ہم جاگتی آنکھوں سے خیالوں کو بنتے ہیں
الفاظ کے محلوں میں ہی ہم راج کرتے ہیں
یہاں افلاس اور مقدر کی جنگ چلتی رہتی ہے
درد مستقل سہ ہے
خوشیاں مختصر سی ہیں
شہر محبت کا ہے
رفاقتیں بنجر سی ہیں
خدارہ!
اپنے دل کو سمجھاؤ
تم میرے شہر نہ آؤ
خدارہ
میرے شہر نہ آؤ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






