کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ رنج و غم کی سیاہی جو دل پہ چھائی ہے
تیری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
مگر یہ ہو نہ سکا مگر یہ ہو نہ سکا
اور اب عالم ہے گزری ہے کچھ اسطرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے اندھیروں میں زندگی میری
انہیں اندھیروں میں رہ جاؤں گا کھو کر کبھی
میں جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی