کبھی کوئی وجدانیت بے تاب کردیتی ہے
واجب صدا بھی بے انصاف کردیتی ہے
میری بے گناہی ناراست بھی ہے لیکن
معقوُل پوشیدگی انہیں برخلاف کردیتی ہے
سب کو مُسکن سمجھنا غلطی تھی میری
مگر آزمائش کہاں اتنا صاف کردیتی ہے؟
عیار ضابطگیاں نامعلوم ہیں کتنی
کیونکہ ریاکاری انہیں معاف کردیتی ہے
ہے کوئی رنجش تو رہہ گئی پھر دل میں
زباں کچھ بھی کہنے سے حجاب کردیتی ہے
جو حد سے گذر جائے اسے عشق کہتے ہیں
محبت کی کج ادائی سنتوش نقاب کردیتی ہے