کتنی شمعیں روشن ہوں گی
Poet: Farrukh IZhar By: Farrukh Izhar, Karachiکتنی شمعیں روشن ہوں گی کتنے دیب جلاؤ گی
پیار کی پہلی سالگرہ تم کس کے ساتھ مناؤ گی
میں تو رخصت ہو ہی رہا ہوں آج تمہاری گلیوں سے
اب تم کس کے ساتھ رہو گی کس کا ساتھ نبھاؤ گی
خواب یہ میں نے کب دیکھا تھا کب میں نے سوچا تھا
دل کی تنہا راہگزر پہ تم مجھ کو مل جاؤ گی
توڑ دو سارے عہد و پیماں چھوڑ دو ساری رسموں کو
کب تک آخر، آخر کب تک تم کو تڑپاؤ گی
شک کرنا تو انسانوں پر ہے فطرت انسانوں کی
کس کس کو سچ بتلاؤ گی کس کس کو سمجھاؤ گی
آخر وہ دن کب آئے گا جب خلوت میں مجھ سے تم
میرے دل کا حال سنو گی اپنا حال سناؤ گی
فرض کرو گر بعد فرقت میں تم کو مل جاؤں تو
حیرت میں پڑ جاؤ گی یا سینے سے لگ جاؤ گی
یہ لمحے جو چاہت ہے ہیں ان کو پانا اچھا ہے
بیت گئے گر یہ لمحے تو جان بہت پچھتاؤ گی
جانے والے یاد ہمیشہ آتے ہیں تہواروں پر
کوئی تمہیں گر یاد آیا تو کیا تم اشک بہاؤ گی
جانے سے پہلے بس اتنا سوچ لو گر تو بہتر ہے
دل کی گلیاں بند ملیں گی جب تم لوٹ کے آؤ گی
ٹھیک ہے تم لوٹا دو مجھ کو میرے تحفے اور خطوط
لیکن جو دن پیار میں گزرے وہ کیسے لوٹاؤ گی
سوچتا رہتا ہوں میں اکثر، میں نہ رہا تو میرے بعد
اپنی چاہت کی خوشبو سے تم کس کو مہکاؤ گی
میں بھی تم کو تنگ کروں گا اتنا تنگ کہ خود ہی تم
چھوڑ کے ساری دنیا داری، مجھ میں آن سماؤ گی
یوں ہی ختم نہیں ہوسکتا عشق کا قصہ لمحوں میں
میں نے خوں کے گھونٹ پیے ہیں، تم بھی زخم چباؤ گی
ہوجاؤ تم لاکھ کسی کی لیکن سن لو پھر بھی تم
مجھ سے ہی منسوب رہو گی میری ہی کہلاؤ گی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے







