کتنی شمعیں روشن ہوں گی کتنے دیب جلاؤ گی
پیار کی پہلی سالگرہ تم کس کے ساتھ مناؤ گی
میں تو رخصت ہو ہی رہا ہوں آج تمہاری گلیوں سے
اب تم کس کے ساتھ رہو گی کس کا ساتھ نبھاؤ گی
خواب یہ میں نے کب دیکھا تھا کب میں نے سوچا تھا
دل کی تنہا راہگزر پہ تم مجھ کو مل جاؤ گی
توڑ دو سارے عہد و پیماں چھوڑ دو ساری رسموں کو
کب تک آخر، آخر کب تک تم کو تڑپاؤ گی
شک کرنا تو انسانوں پر ہے فطرت انسانوں کی
کس کس کو سچ بتلاؤ گی کس کس کو سمجھاؤ گی
آخر وہ دن کب آئے گا جب خلوت میں مجھ سے تم
میرے دل کا حال سنو گی اپنا حال سناؤ گی
فرض کرو گر بعد فرقت میں تم کو مل جاؤں تو
حیرت میں پڑ جاؤ گی یا سینے سے لگ جاؤ گی
یہ لمحے جو چاہت ہے ہیں ان کو پانا اچھا ہے
بیت گئے گر یہ لمحے تو جان بہت پچھتاؤ گی
جانے والے یاد ہمیشہ آتے ہیں تہواروں پر
کوئی تمہیں گر یاد آیا تو کیا تم اشک بہاؤ گی
جانے سے پہلے بس اتنا سوچ لو گر تو بہتر ہے
دل کی گلیاں بند ملیں گی جب تم لوٹ کے آؤ گی
ٹھیک ہے تم لوٹا دو مجھ کو میرے تحفے اور خطوط
لیکن جو دن پیار میں گزرے وہ کیسے لوٹاؤ گی
سوچتا رہتا ہوں میں اکثر، میں نہ رہا تو میرے بعد
اپنی چاہت کی خوشبو سے تم کس کو مہکاؤ گی
میں بھی تم کو تنگ کروں گا اتنا تنگ کہ خود ہی تم
چھوڑ کے ساری دنیا داری، مجھ میں آن سماؤ گی
یوں ہی ختم نہیں ہوسکتا عشق کا قصہ لمحوں میں
میں نے خوں کے گھونٹ پیے ہیں، تم بھی زخم چباؤ گی
ہوجاؤ تم لاکھ کسی کی لیکن سن لو پھر بھی تم
مجھ سے ہی منسوب رہو گی میری ہی کہلاؤ گی