کتنے چہرے پہ ڈالے نقاب آدمی
جی رہا ہے یہاں بے حساب آدمی
زندگی میں کبھی دوسروں کے لئے
کاش دیکھے کوئی اک تو خواب آدمی
حق کسی کا کسی کی خوشی چھین کر
کیوں سمجھتا ہے کارِ ثواب آدمی
جس کے دم سے ہی ذلت کا دھبہ لگا
آدمی کا ہے یہ انتخاب آدمی
جان دیتا ہے ارضِ وطن کے لئے
اس وطن کا تو ہے لاجواب آدمی
روزِ محشر کھڑا ہے لئے ہاتھ میں
اپنے اعمال کی اک کتاب آدمی
تھا محبت کا پیکر مگر دیکھ لو
بن گیا ہے یہ وشمہ عذاب آدمی