کرے گا تنگ وہ کیا عرصۂ حیات مرا
کہ تھام رکھا ہے میرے خدا نے ہاتھ مرا
بقول تیرے بہت بیوفا ہے عورت ذات
بگاڑ لیں گے بھلا کیا یہ نظریات مرا
مرے وجود کو طعنوں سے چھیدنے والے
بڑے ہی چاؤ سے مانگا تھا تو نے ہاتھ مرا
یہ سوچ کرنہیں جاتی میں اب قریب اس کے
نہ جان لے لے کہیں اس کی التفات مرا
کسی بھی حال میں جینا ہے ، جتنا جینا ہے
کریں گے حوصلے کم کیا یہ حادثات مرا
چلے گی جب تو مرے بعد میری لختِ جگر
چلے گا سایہ ہمیشہ تمہارے ساتھ مرا
تو میرے ساتھ بھی چلنے کی کیا ضرورت ہے
اگر قبول نہیں ہے تجھے یہ ساتھ میرا
کھلی کھلی سی حسیں چاندنی کے سائے میں
دُکھا رہی ہے بہت دل یہ چاند رات مرا
ازل سے ہی مری خواہش رہی ہے یہ عذراؔ
کہ احترام کرے ساری کائنات مرا