کس سے آنکھیں چرالیں ہم نے
اپنی راہیں پھر بھٹکالیں ہم نے
بڑی عصمت سے تھی بندگی ہماری
اوروں کی عبادتیں چرالیں ہم نے
ارادے ہمارے لہر لہر ابھرے
لہروں سے شدتیں چرالیں ہم نے
روز امیدوں پہ منتظر یہ آنکھیں
غیروں سے عادتیں چرالیں ہم نے
اپنے تکلف کو جلن میں ڈال کر
کس کس کی علامتیں چرالیں ہم نے
اُس بے قدری پہ دھڑکن سنبھال کر
ضبط کی راتیں سلالیں ہم نے