کس کس طرح خود کو عذاب دیں گے
جب ان کو آخری جواب دیں گے
دل کی کتاب حسرت میں پھر کیا ہو گا کمال
اس کے نام جو وداعی گلاب دیں گے
ہجر کے جنگل میں پاگل بنیں پھریں اس طرح
نجانے کس کس کو اپنا شباب دیں گے
اے کاش! وہ نہ کرے قبو ل ہمارا آخری پیغام
اس کی قبولیت کو ہر حساب دیں گے
مر کر بھی کرے گی زبان اس کا ہی تذکرہ
ان کی چاہت کو اتنا سیراب دیں گے