کسی خوش نگاہ سی آنکھ نے
Poet: Imran Raza By: Syed Imran Raza, sargodhaکسی خوش نگاہ سی آنکھ نے
یہ کمال مجھ پہ کرم کیا
میری لوحِ جاں پہ رقم کیا
وہ ایک چاند سا حرف تھا
وہ
جو ایک شام سا نام تھا
وہ جو ایک پھول سی بات پھرتی تھی دربدر
اُسے گلستان کا پتہ دیا
میرا دل کہ شہرِ ملال تھا
اُسے روشنی میں بسا دیا
میری آنکھ اور میرے خواب کو کسی ایک پل میں بہم کیا
میرے آئینوں پہ جو گرد تھی مہ ـو ـ سال کی
وہ اتر گئی
وہ جو دھند تھی میرے چار سو
وہ بکھر گئی
سبھی روپ عکس جمال کے
سبھی خواب شام وصال کے
جو غبارِ وقت میں سر بسر تھے اٹے ہوئے
وہ چمک اٹھے
وہ جو پھول راہ کی دھول تھے
وہ مہک اُٹھے
لیے سات رنگ بہار کے
چلا میں جو سنگ بہار کے
کسی دست شعبدہ ساز کے
میرے نام پر میرے واسطے
میری بے گھری کو پناہ دی
میری جستجو کو نشاں دیا
جو یقین سے بھی حسین ہے
مجھے ایک ایسا گماں دیا
وہ جو ریزہ ریزہ وجود تھا
اسے ایک نظر میں بہم کیا
کسی خوش نگاہ سی آنکھ نے
یہ کمال مجھ پہ کرم کیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






