دیارِ شوق میں کب رتجگا نہیں ہوتا
مگر ہر آنکھ کو یہ حوصلہ نہیں ہوتا
کسی کسی پہ ہی کھلتا ہے رازِ ہجر و وصال
ہر ایک دل کو یہ منصب عطا نہیں ہوتا
لگی ہے بھیڑ مناظر کی تا بہ حدِّ نگاہ
جو دیکھو تو کوئی منظر نیا نہیں ہوتا
میں خود سے پوچھتا ہوں کون ہے، کہاں ہے تو
جواب لینے کا پھر حوصلہ نہیں ہوتا
اُسی کا نام پکارا ہے روز و شب لیکن
وہ بے نیاز ہے، میرا خدا نہیں ہوتا
چراغِ آرزوئے شوق کو بجھا نہ سمجھ
بجھا سا لگتا ہے لیکن بجھا نہیں ہوتا
چلو وہ راندۂ درگاہِ دوستاں ہی سہی
دل ایسا دوست کوئی دوسرا نہیں ہوتا