کسی کو دل میں بسا کے ہم نے نصیب اپنا جگالیا
نہ فکرِ ساقی نہ فکرِ مینا غموں سے دامن چھڑا لیا
بھلے نظر سے ہی دور ہیں وہ مگر ہماری نظر میں ہیں
انہیں نگاہوں کی پتلیوں کا تو تارا ہم نے بنالیا
نہ سوچا سمجھا نہ دیکھا بھالا ڈگر پہ اُن کی چلا گیا
یہی تو تھی بے خودی ہی اپنی کہ چوٹ گہری ہی کھالیا
یہ بے قراری ہے ایسی اپنی کہ ماہی جیسے بے آب ہو
تڑپ تڑپ کے ہی آہیں بھرنا تو آنسو بھی کچھ بہالیا
اثر کو نہ قیس سے ہے مطلب نہ دشت وصحرا کی سیر کی
مٹا دیا جب خودی کو اس نے تو راز سارا ہی پالیا